بسیار خور کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق جو شخص ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ خوب ٹھونس کر کھاتا ہے اور اگر اس طرح خوب رج کر کھانے کا یہ سلسلہ متواتر تین مہینوں تک جاری رکھتا ہے تو اسے بسیار خوری کا مریض سمجھنا چاہیے۔
جب کھانا پینا ہی کھاتے پیتے لوگوں کا مشغلہ تھا تواس سلسلے میں کئی باتیں اور خودساختہ اصول بھی سننے کو ملتے تھے‘ مثلاً یہ بات بہت عام تھی کہ اتنا کھاؤ کہ مرغ تمہارے منہ سے دانے ٹھونگنے لگے۔ ٓپھل بکثرت کھانے کے سلسلے میں بھی ایک دوسرے سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ آپ نے کتنے پھل کھائے‘ مثلاً آم کا موسم ہے تو کہا جاتا تھا کہ آپ نے کتنے آم کھائے‘ ایک ڈاڑھی یا دو ڈاڑھی؟ یعنی آم کی گٹھلیوں کا ڈھیر کتنی مرتبہ بڑھتے بڑھتے آپ کی ڈاڑھی تک آیا۔ ایک اور بات یہ بھی مشہور تھی کہ آم خوری کے دوران کتنی لنگیاں بدلنی پڑیں۔بکثرت کھانے کایہ انداز‘ بھوک کا ہَوکا اور ’’جوعُ البقر‘‘ یعنی بیل جیسی بھوک بھی کہلاتا ہے۔ برصغیر میں اس سلسلے میں بہت سے واقعات عوام اور خواص دونوں ہی کے ملتے ہیں۔ مثلاً متھرا اور بنارس کے پنڈوں اور چوبوں کی بسیار خوری آج بھی مشہور اورموجود ہے۔ یہ ایک ہی وقت میں کئی کئی سیر لڈو پیڑے وغیرہ مرنے والوں کی روح کو خوش کرنےکیلئے کھاجاتے ہیں۔ حیدرآباد دکن میں ایک شخص پنج سیری نواب کے نام سے بہت مشہور تھا۔ جسے خاص طور پر مدعو کرکے کھلایا جاتا تھا۔ وہ پانچ سیر کا ایک لگن یا پرات اپنے ساتھ لاتا اور اس میں بریانی بھر کر کھاتا‘ اپنا پیٹ پانچ سیر بریانی سے بھرتا تو دیکھنے والوں کوحیرت کے سمندر میں ڈبو دیتا‘ حالانکہ دراصل وہ خود اپنا اور اپنی نقل کرنے پر آمادہ کرنے والوں کا بیڑہ غرق کرتا تھا۔
نواح لکھنؤ کے ایک راجہ صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ آم کے موسم میں دوپہر کے کھانے کے بعد‘آم اس وقت تک چوستے رہتے تھے کہ جب تک نیند انہیں بستر پر گرا نہیں دیتی تھی۔ ہمارے ایک گورنر جنرل بھی اپنی بسیار خوری کے قصے پیچھے چھوڑگئے ہیں۔ کوئی ڈش انہیں پسند آجاتی تو کھانے کے تھوڑی دیر بعد قے کرکے طبیعت بحال ہوتے ہی اسے پھر رج کر کھاتے۔
کھانے پینے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ کھانے کو زہر سمجھ کر بہت کم اور بعض بالکل ہاتھ نہیں لگاتے ہیں۔ اس کیفیت کو طب میں بے اشتہائی یعنی بھوک کی عدم موجودگی کہتے ہیں تو پہلی کیفیت بھوک کا ہوکا کہلاتی ہے اور یہ دونوں شکایات دنیا کے سب سے خوش حال ملک میں بہت عام ہیں۔ ان کے اپنے اندازوں کے مطابق تقریباً آٹھ ملین امریکی اس کا شکار ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ مرد ہیں۔
یہ دونوں مرض بالعموم اوائل عمر میں شروع ہوتے ہیں‘ لیکن پانچ سے ستر سال کی عمر کے لوگ بھی ان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق ہر قسم کے طبقات اور پس منظر سے ہوتا ہے۔ یعنی ان میں اقتصادی‘ نسلی یا مذہبی تفریق نہیں پائی جاتی۔ کھانے پینے کی یہ غیرمعتدل اور غیرمتوازن عادات‘ مہلک ہوتی ہیں۔ اندازاً ایسے چھ فیصد افراد ان عادات کی شدت کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد بالعموم قلب اور سانس کی بندش کے علاوہ دست لانے والی ادویات کی کثرت اور خودکشی کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔امریکن سائیکاٹرک سوسائٹی نے بسیار خور کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق جو شخص ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ خوب ٹھونس کر کھاتا ہے اور اگر اس طرح خوب رج کر کھانے کا یہ سلسلہ متواتر تین مہینوں تک جاری رکھتا ہے تو اسے بسیار خوری کا مریض سمجھنا چاہیے۔ ایسے مریض ڈٹ کر کھانے کے بعد بالعموم حلق میں انگلی ڈال کر کھایا پیا قے کرکے نکال دیتے ہیں‘ دست آور دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ کھانا نہ کھانے والے دبلے پتلے افراد کے برخلاف یہ لوگ بہت موٹے بھی نہیں ہوتے۔ ان کا وزن زیادہ بڑھ بھی جائے تو دس پاؤنڈ سے زیادہ نہیں بڑھتا۔
علامات: ان کے گلے میں سوجن اور خراش مستقل رہتی ہے۔ اس کے علاوہ لعابی غدود بھی متورم رہتے ہیں۔ ان کے دانت کم زور اور بار بار قے کی وجہ سے اس میں صفرا شامل ہونےسے بدرنگ ہوجاتے ہیں۔ پپوٹے سوجے ہوئے ہوتےہیں اور آنکھوں کی باریک رگیں بھی پھٹ جاتی ہیں۔
مرض کی شدت: مرض کی شدت کی صورت میں پٹھوں (عضلات) میں اینٹھن ہوتی ہے۔ قلب کی رفتار ہموار نہیں رہتی۔ گھبراہٹ یعنی اختلاج کی تکلیف رہتی ہے۔ خون میں شکر کی سطح کم رہتی ہے۔ جگر‘ آنتوں اور گردوں کی شکایات کے یہ شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے معدے کی اندرونی پرتیں اور غذائی نالی بھی پھٹ کر سنگین مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔طبی اعتبار سے: طبی اعتبار سےبھوک کے ہوکے کے اسباب میں معدے کی خراش ذیابیطس‘ بچوں میں پیٹ کے کیڑے قابل ذکر ہیں۔ معدے میں نزلے کی سوزش سے بھی بھوک بہت لگتی ہے۔ رات کے آخری حصے میں بھوک کی شدت‘ معدے کی خراش کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس کا علاج اسباب پرغور کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ بھوک کا مرجانا یا کم ہونا بھی بہت خطرناک ہوتا ہے۔ جسم کے علاوہ دیگر صلاحیتیں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ جسم کی قوت مدافعت کے گھٹ جانے سے امراض کے حملے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ شکایت عام طور پر معدے کے امراض کی ایک علامت ہوتی ہے۔ معدے کی پرانی سوزش کے علاوہ دیگر امراض بھی اس کا سبب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً بدہضمی‘ عصبی کمزوری‘ کثرت شراب نوشی‘ خوب سیر ہوکر کھانا‘ روغنی غذاؤں کا کثرت سے استعمال‘ سرطان یا زخم معدہ‘ واضح رہے کہ بھوک کا نہ لگنا‘ سرطان معدہ کی ایک اہم علامت ہوتی ہے۔ ان دونوں مرضی کیفیات کا ایک اہم سبب نفسیاتی بھی ہوتا ہے۔ماہرین اسے جسم میں حیاتی کیمیائی عدم توازن کا سبب بھی قرار دیتے ہیں۔ بسا اوقات فکر وپریشانی میں اکثر لوگ بے تحاشہ کھانے لگتے ہیں تو اکثر کی بھوک غائب ہوجاتی ہے۔ معالج کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسباب پر نظر رکھ کر مریض کا علاج کرے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں